کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 23
یَلْزَمُہُ فِي غَیْرِہِ أُمُوْرِ ، مِنْھَا: الدُّعَائُ إِلَی الدِّیْنِ ، وَالنَّصِیْحَۃُ وَ الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھِيُ عَنِ الْمُنْکَرِ ، وَأَنْ یُحِبَّ لَہُ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ۔‘‘ [1] [اس میں شدید وعید ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیا ہے ، کہ وہ خسارے میں ہیں ، سوائے اس شخص کے ، کہ جس میں چار باتیں ہوں : ایمان، عمل صالح، حق بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرنا اور ایک دو سرے کو صبر کی وصیت کرنا۔ اور یہ سورت اس بات پر دلالت کرتی ہے ، کہ نجات ان چاروں باتوں کے اکٹھے ہونے سے وابستہ ہے۔ جس طرح ہر مکلف شخص اپنے لیے کچھ اعمال کرنے کا پابند ہے ، اسی طرح دوسرے لوگوں کے کچھ واجبات بھی اس کے ذمہ ہیں ، اور انہی میں سے ان کو دین کی طرف بلانا، نصیحت کرنا، نیکی کا حکم دینا، بدی سے روکنا اور ان کے لیے وہی پسند کرنا ، جو اپنے لیے پسند کرے، شامل ہیں ۔] علامہ نیسا پوری نے سورت کی تفسیرمیں لکھا ہے: ’’ أَرَادَ أَنْ یُبَیِّنَ فِيْ ھٰذہِ السُّوْرَۃِ مَا یُجِبُ الْاِشْتِغَالُ بِہِ مِنَ الْإِیْمَانِ وَالْأَعْمَالِ الصَّالِحَاتِ، وَھُوَ حَظُّ الْآدَمِيِّ مِنْ جِھَۃِ الْکَمَالِ، وَمِنَ التَّوَاصِيْ بِالْخَیْرِاتِ وَکَفِّ النَّفْسِ مِنَ الْمَنَاھِي،وَھُوَ حَظُّہُ مِنَ الْإِکْمَالِ وَأَکَّدَ مَا أَرَادَ بِقَولِہِ : {وَالْعَصْرِ}‘‘ [2] [اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے]وہ کچھ بیان کرنے کا ارادہ فرمایا، کہ ان کا بجا لانا انسان پر لازم ہے، ان میں سے اپنی شخصیت کی تکمیل کی خاطر
[1] التفسیر الکبیر ۳۲؍۷۹۔۸۰۔ [2] تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان ۳۰؍۱۵۸۔