کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 21
۳۔ ایک دوسرے کو وصیت حق کرنے کا شرائط فلاح میں سے ہونا: اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان فرما رکھا ہے ، کہ تمام بنی نوع انسان سنگین خسارے میں ہیں ۔ اس خسارے سے صرف وہی محفوظ رہے گا، جو کہ چار کام کرے گا۔ اور ان چار میں سے ایک [التواصي بالحق] [ایک دوسرے کو حق بات کی وصیت کرنا ہے]ارشادِ رب العالمین ہے: {وَالْعَصْرِ۔ إِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ إِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔} [1] [زمانے کی قسم! بلاشبہ تمام انسان ضرور ہی بہت بڑے خسارہ میں ہیں ، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔] اور [تواصی بالحق] سے مراد یہ ہے ، جیسا کہ علامہ شوکانی نے بیان کیا ہے ، کہ وہ ایک دوسرے کو اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی تلقین کریں اور وہ ذمہ داری یہ ہے ، کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں ، توحید کا اقرار کریں ، شریعت الٰہیہ کے مطابق زندگی بسر کریں اور اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ باتوں سے اجتناب کریں ۔ امام عبدالرزاق نے حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ سے اس سورت کی تفسیر میں نقل کیا ہے : ’’{وَالْعَصْرِ} قَسَمٌ أَقْسَمَ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَی{إِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ} قَالَ: اَ لْإِنْسَانُ کُلُّھُمْ ثُمَّ اسْتَثْنَی فَقَالَ: {إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا}، ثُمَّ لَمْ یَدَعْھُمْ وَذَاکَ ، حَتَّی قَالَ: {وَعَمِلُوا
[1] سورۃ العصر؍ الآیات ۱۔۳۔