کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 20
بِحَظِّھَا مِنْھَا مَنْ عَمِلَ ھٰذِہِ الشُّرُوْطَ مِنَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْي عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْإِیْمَانِ بِاللّٰہِ۔‘‘ [1] [اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس اُمت کے لیے مقرر کردہ یہ شان و شوکت وہ حاصل کرتا ہے ، جو کہ امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور ایمان باللہ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔] علامہ شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’ أَيْ کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ حَالَ کَوْنِکُمْ آمِرِیْنَ نَاھِیْنَ مُوْمِنِیْنَ بِاللّٰہِ ، وَمَا یَجِبُ عَلَیْکُمُ الْاِیْمَانُ مِنْ کِتَابِہِ وَرَسُوْلِہِ وَمَا شَرَعَہُ لِعِبَادِہ۔‘‘ [2] [تم [نیکی کا ]حکم دینے ، [برائی سے] روکنے، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور ان کی کتاب ، ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بندوں کے لیے [نازل کردہ] شریعت پر ، جیسا کہ تم پر فرض کیا گیا ہے ، ایمان لانے کی حالت میں بہترین اُمت ہو۔] خلاصۂ کلام یہ ہے ، کہ جو شخص اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہونا چاہے ، اس کے لیے ضروری ہے ، کہ وہ اس میں شامل ہونے کی شرائط کو پورا کرے اور ان میں سے ایک شرط ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ہے۔ اور اس شرط کا پورا کرنا سب پر لازم ہے۔
[1] المحرَّر الوجیز ۳؍۱۹۵۔ نیز ملاحظہ ہو:إحیاء علوم الدین ۲؍۳۰۷، والکشاف ۱؍۴۵۴؛ والتفسیر الکبیر ۸؍۱۷۹؛ وتفسیر القرطبي ۲؍۳۰۷؛ وتفسیر أبي السعود ۲؍۷۱؛ وتفسیر القاسمي ۴؍۱۹۲؛ اور راقم السطور کی الحسبۃ: تعریفھا ومشروعیتھا ووجوبھا ص ۲۸۔۳۰، اور فضائل دعوت ص ۶۴۔۶۹۔ [2] فتح القدیر ۱؍۵۶۱۔