کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 18
وہ اسی کی طرف دعوت دے ، جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی۔ قرآن کے ساتھ وعظ و نصیحت کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں سے منع کرے۔]
امام ابن قیم نے تحریر کیا ہے:
’’ الآیَۃُ تَدُلُّ عَلیٰ أَنَّ أَتْبَاعَہُ ھُمْ أَھْلُ الْبَصَائِرِ الدَّاعِیْنَ إِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ ، فَمَنْ لَیْسَ مِنْھُمْ فَلَیْسَ مِنْ أَتْبَاعِہِ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ وَالْمُوَافَقَۃَ ، وَإِنْ کَانَ مِنْ أَتْبَاعِہِ عَلَی الْاِنْتِسَابِ وَالدَّعْوَی۔‘‘[1]
[(یہ) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے اہل بصیرت ہیں اور وہ بصیرت پر ہی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اور جو شخص ان میں سے نہیں ہے ، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہونے کے دعویٰ کے باوجود ، حقیقت میں آپ کے فرمان برداروں میں سے نہیں ہے۔]
خلاصہ گفتگو یہ ہے ، کہ ہر وہ شخص جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے ، کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں میں سے ہے ، وہ خواہ مرد ہو یا عورت، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، تاجر ہو یا زراعت پیشہ ، صنعت کار ہو یا مزدور، طبیب ہو یا انجینئر ، حاکم ہو یا محکوم، غرض یہ کہ کوئی بھی ہو ، اس پر لازم ہے، کہ وہ اپنی استطاعت اور علم کے بقدر
[1] مدارج السالکین ۲؍ ۴۸۲؛ نیزملاحظہ ہو: معاني القرآن للفراء ۲؍۵۵؛ وأحکام القرآن للجصاص ۳؍۱۷۹؛ وتفسیر البغوي ۲؍۴۵۳؛ والکشاف ۲؍۴۳۶؛ والتفسیر الکبیر ۱۸؍۲۲۵؛ وتفسیر القرطبي ۲؍ ۴۵۳ ؛ وفتح القدیر ۲؍۸۴۔۸۵؛ وتفسیر التحریر والتنویر ۱۳؍۶۵؛ وتفسیر السعدي ص ۴۳۰؛ وأیسر التفاسیر ۲؍۴۳۲؛ اور راقم السطور کی کتاب فضائل دعوت ص ۴۰۔۴۳۔