کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 16
مطلب دوئم: دعو تِ دین دینے کی ہر مسلمان کو ترغیب مطلب سوئم: قبولِ اسلام کے ساتھ ہی دعوتِ دین کا آغاز مطلب چہارم: دعوتِ دین کی خاطر عام مسلمانوں کی سر گرمیاں مطلب پنجم: دعوتِ دین کی ذمہ داری کے متعلق اقوالِ علماء مطلب ششم: تنبیہات ا: عامۃ الناس کا صرف دعوتِ خاصہ دینا ۲: عامۃ الناس کا صرف واضح باتوں کی دعوت دینا ۳: دعوتِ دین دینے والے کا اپنے حدود علم میں رہنا حرفِ آخر خلاصۂ کتاب اور اپیل شکر و دعا: رب رؤوف و ودُود کا انتہائی شکر گزار ہوں ، کہ انہوں نے مجھ کمزور کو اس اہم موضوع کے متعلق قلم کو حرکت میں لانے کی سعادت سے نوازا۔ فلہ الحمد کما یحبہ سبحانہ و تعالیٰ و یرضاہ۔ رب حی و قیوم میرے والدین محترمین کی قبروں پر اپنی عنایات کی بارش برسائیں ، کہ انہوں نے اپنے رب کریم کے عطا کردہ غیر معمولی جذبہ دعوتِ دین کو اپنی اولاد کے سینوں میں منتقل کرنے کی خاطر خوب محنت اور کوشش کی ۔ (رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا اللہ تعالیٰ میری اہلیہ محترمہ اور عزیزہ القدر بیٹے حافظ سجاد الٰہی اور ان کی اہلیہ کو میری مقدور بھر خدمت کرنے کا دنیا و آخرت میں بہترین صلہ عطا فرمائیں اور اس کتاب کے ثواب میں شریک فرمائیں ۔ اِنّہ سمیع مجیب۔کتاب کی مراجعت میں بھر پور تعاون کے لیے عزیزم عمر فاروق قدوسی کے شکر گزار اور دعا گو ہوں ۔ جزاہ اللّٰہ تعالیٰ خیراً۔ فضل الٰہی بعد نمازِ ظہر ۱۵ جمادی الثانیہ ۱۴۲۸ھ موافق ۳۰جون ۲۰۰۸۔ الریاض