کتاب: دعوت دین کون دے؟ - صفحہ 14
بے شک اللہ تعالیٰ یقینا بہت قوت والے سب پر غالب ہیں ۔]
ایک اور مقام پر فرمایا:
{یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْأَقْدَامَکُمْ}[1]
[اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو گے ، تو وہ تمہاری مدد کریں گے اورتمہارے قدم جما دیں گے۔]
اُمت کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد یہ ہے، کہ وہ ان کے دین حق کی مدد کرے۔ علامہ قرطبی نے دوسری آیت شریفہ کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:
’’ أيْ إِنْ تَنْصُرُوْا دِیْنَ اللّٰہِ یَنْصُرْکُمْ عَلَی الْکُفَّارِ۔‘‘ [2]
[یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کرو گے ، تو وہ کافروں کے خلاف تمہاری مدد فرمائیں گے۔]
نصرتِ دین کی ایک شکل یہ ہے ، کہ دعوتِ دین دی جائے اور دعوتِ دین کے دو پہلو ہیں ، ایک یہ کہ اہل اسلام کو مسلسل تلقین کی جائے ، کہ وہ اپنے آپ کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں ، اور دوسرا پہلو یہ ہے ، کہ غیر مسلموں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی جائے۔
لیکن سوال یہ ہے ، کہ یہ کام کون کرے؟ اُمت میں سے ایک بہت بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے ، کہ یہ ایک مخصوص گروہ کی ذمہ داری ہے اور انہیں اس سے کچھ سروکار نہیں ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں ، کہ دین کے ہر مسئلے کے بارے میں رائے زنی کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ اس کتاب میں توفیقِ الٰہی سے اسی سوال کا جواب سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
[1] سورۃ محمد۔ صلي اللّٰه عليه وسلم ـ ؍ الآیۃ ۷۔
[2] تفسیر القرطبی ۱۶؍ ۲۳۲۔ نیز ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۵؍۴۶۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: راقم السطور کی کتاب الحسبۃ: تعریفھا ومشروعیتھا ووجوبہا ص۳۱۔۳۴۔