کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 77
کی تصدیق کرنے والا ہو، جو تمہارے پاس ہے، تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: ’’کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہم نے اقرار کیا‘‘ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: ’’تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں، پس جس نے اس کے بعد اعراض کیا، تو وہی لوگ فاسق ہیں‘‘]۔ امام طبری نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’لَمْ یَبْعَثِ اللّٰہُ نَبِیًّا آدَمَ فَمَنْ بَعْدَہُ إِلَّا أَخَذَ عَلَیْہِ الْعَہْدَ فِيْ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم : ’’لَئِنْ بُعِثَ، وَھُوَ حَيٌّ لَیُوْمِنُنَّ بِہِ وَلَیَنْصُرُنَّہُ۔‘‘ وَیَأْمُرُہُ فَیَأخُذُ الْعَہْدَ عَلٰی قَوْمِہِ، فَقَاَل: {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ…}الآیۃ[1] [اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا، مگر اس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عہد لیا: ’’اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی زندگی میں مبعوث کئے گئے، تو وہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے گا اور ضرور آپ کی مدد کرے گا۔‘‘] اور انہوں [یعنی اللہ تعالیٰ] نے اس [نبی] کو یہ حکم بھی دیا، کہ وہ (اسی بات کا عہد) اپنی قوم سے بھی لے۔]
[1] تفسیر الطبري، رقم الأثر ۷۳۲۹، ۶/۵۵۵ ؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۴/۱۲۵؛ و تفسیر السعدي ص ۱۲۴۔۱۲۵۔