کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 61
اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَ لَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَ اِیَّایَ فَاتَّقُوْن}[1] [اے بنی اسرائیل! میری نعمت یاد کرو، جو میں نے تم پر کی اور میرا عہد پورا کرو، میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور صرف مجھ ہی سے ڈرو اور اس پر ایمان لاؤ، جو میں نے نازل کیا ہے، (اور وہ) اس کی تصدیق کرنے والا ہے، جو تمہارے پاس ہے اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو اور صرف مجھ ہی سے پس ڈرو] اللہ کریم نے یہودیوں کو قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے اور اس بات سے روکا ہے، کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے کفر کرنے والے بنیں۔ امام ابوعالیہ (وَ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یَا مَعْشَرَ أَھْلِ الْکِتَابِ! آمِنُوْا بِمَا أَنْزَلْتُ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُمْ۔‘‘[2] ’’اے اہل کتاب کی جماعت! میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نازل کیا ہے، اس پر ایمان لاؤ (اور وہ) اس کی تصدیق کرنے والا ہے، جو تمہارے پاس ہے۔‘‘ امام طبری لکھتے ہیں: ’’(اللہ تعالیٰ نے) انہیں قرآن (کریم) کی تصدیق کا حکم دیا اور اس بات سے آگاہ فرمایا، کہ ان کی جانب سے قرآن کی تصدیق کرنے میں تورات کی تصدیق ہے، کیونکہ قرآن میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار، ان کی تصدیق اور اتباع کا حکم ہے، وہی حکم تورات و انجیل میں
[1] سورۃ البقرۃ / الآیتان ۴۰۔۴۱۔ [2] منقول از : تفسیر طبری ۱/۵۶۱۔