کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 56
ہ: عرب کے قبیلے، انسانوں کے تمام گروہ، عرب و عجم[1] و: مشرق و مغرب میں تمام شہروں اور دیہاتوں والے[2] د: ارشاد ربانی: {قُلْ اَیُّ شَیْئٍ اَکْبَرُ شَہَادَۃً قُلِ اللّٰہُ شَہِیْدٌ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ}[3] [کہہ دیجیئے کون سی چیز گواہی میں سب سے بڑی ہے؟ کہہ دیجیئے: اللہ تعالیٰ، میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراؤں اور جس تک یہ پہنچے]۔ اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، کہ وہ مشرکوں کو بتلا دیں، کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے، تاکہ وہ انہیں اور باقی لوگوں میں سے جن تک پیغام پہنچ سکے، ان سب کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا دیں۔ (وَ مَنْ بَلَغَ) کی تفسیر میں ذکر کردہ اقوال میں سے تین درج ذیل ہیں: ا: تمہارے علاوہ دیگر ان تمام لوگوں کو ڈرا دوں، جن تک پیغام پہنچ سکے۔ ب: ان سب لوگوں کو ڈرادوں، جن تک قرآن [کی آواز] پہنچ سکے۔ ج: یہ ضمیر مخاطبین پر عطف ہے، اور مراد یہ ہے، کہ اے اہل مکہ تمہیں اور تمہارے علاوہ جو سیاہ اور سرخ لوگ ہیں، جن تک پیغام پہنچ
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲؍۱۷۵۔ [2] تفسیر أبي السعود ۳/۱۶۳؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البیضاوي ۱/۳۱۱۔ [3] سورۃ الأنعام / جزء من الآیۃ ۱۹۔