کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 49
ہوں، میرے لوگوں کو جو بنی اسرائیل ہیں، مصر سے نکال۔‘‘[1]
مذکورہ بالا فقرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کے مقصد و مدعا کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا عمل بھی اسی کی تائید کرتا ہے، کہ انہوں نے بنی اسرائیل کی رہائی اور ان کو وعدہ کی زمین کی جانب لے جانے کے سوا دیگر اقوام عالم سے کچھ سروکار نہیں رکھا۔[2]
۲: کتاب استثناء (حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچویں اور آخری کتاب) میں ہے،
’’موسیٰ۔ علیہ السلام ۔نے ہم کو ایک شریعت [کی وصیت] فرمائی، جو کہ یعقوب۔ علیہ السلام ۔ کی جماعت کی میراث ہو۔‘‘[3]
اس حوالہ نے شریعت تورات کا خاص اسرائیلیوں کے لیے ہی ہونا ظاہر کردیا، اگر یہ فقرہ نہ ہوتا، تو ممکن تھا، کہ کوئی مدعی کہہ سکتا، کہ شریعت تورات سب دنیا کے لیے ہے۔[4]
بدھ مت کا دائرہ دعوت:
بدھ مذہب کی صدہا سالہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے، کہ انہوں نے اپنے زمانہ عروج میں ہندو جاتی کے علاوہ کسی دوسری قوم کو اپنے دین کی دعوت نہیں دی اور کسی غیر مذہب اسرائیلی، بابلی، مصری، حجازی، مغربی وغیرہ کے ماننے والے کو اپنے دین میں داخل نہیں کیا۔ تاریخ کی یہ زبردست شہادت بدھ ازم کو محدود رقبہ اور محدود قوم کے لیے خاص بتا رہی ہے۔[5]
[1] کتاب مقدس، خروج، باب ۳، فقرات۷۔۱۰، ص ۵۶۔
[2] ملاحظہ ہو: رحمۃ للعالمین صلی اللّٰه علیہ وسلم ۳/۹۱۔
[3] باب ۳۲، درس ۴ منقول از رحمۃ للعالمین صلی اللّٰه علیہ وسلم ۳/۹۱۔
[4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳/۹۱۔
[5] ملاحظہ ہو: المرجع السابق۳/۹۳۔