کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 46
امام نووی لکھتے ہیں: ’’کہا گیا ہے، کہ [أَحْمَرَ] سے مراد عجمی اور ان کے علاوہ دیگر سفید رنگ کے لوگ ہیں اور [أَسْوَدَ] سے مراد گندمی رنگ کے غالب ہونے کی بنا پر عربی اور ان کے علاوہ سوڈان وغیرہ کے لوگ ہیں۔
اور (یہ بھی) کہا گیا ہے، کہ [أَحْمَرَ] سے مراد سوڈان کے لوگ اور [أَسْوَد] سے مراد عربی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہیں۔
اور (یہ بھی کہا گیا ہے، کہ [أَحْمَرَ] سے مراد انسان اور [اَسْوَد] سے مراد جن ہیں۔
اور یہ سب [اقوال] درست ہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں۔‘‘[1]
صحیح مسلم کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ ایک اور حدیث میں ہے:
’’وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً ‘‘
’’اور مجھے ساری مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا‘‘
حافظ ابن حجر اس روایت کے متعلق تحریر کرتے ہیں: ’’اس بارے میں سب سے زیادہ صریح اور جامع مسلم کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے۔‘‘[2]
سابقہ انبیاء علیہم السلام کا دائرہ دعوت:
قرآن کریم کی متعدد آیات اس بات کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں، کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت ان کی اپنی اپنی قوم کے لیے تھی۔ بطور مثال درج ذیل چھ آیات ملاحظہ فرمائیے:
۱: {لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ}[3]
[1] شرح النووي ۵/۱۵؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباری ۱/۴۳۹۔
[2] المرجع السابق ۱/۴۳۹۔
[3] سورۃ الأعراف/جزء من الآیۃ ۵۹۔