کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 43
تنبیہ:
عام دستور کے مطابق [حال] کو [ذوالحال] کے بعد ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اس آیت کریمہ میں حال [کَآفَّۃً] کو ذوالحال [لِلنَّاسِ] سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن عطیہ اندلسی تحریر کرتے ہیں: ’’[کآفۃ] حال ہونے کی بنا پر منصوب[1] ہے اور اس کو اہتمام کی خاطر پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ [یعنی اس حقیقت کو نمایاں کرنے کے اہتمام کے پیش نظر، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سب لوگوں کے لیے ہے]‘‘ [2]
علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خصائص میں سے ایک ہے، جن کا ذکر حدیث شریف [أُعْطِیْتُ……الحدیث] [3] [مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں، جو کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں] میں کیا گیا ہے۔‘‘ [4]
د: ارشاد باری تعالیٰ:
{تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا}[5]
[بہت برکت والے ہیں وہ، جنہوں نے اپنے بندے پر فیصلہ کرنے والی کتاب نازل فرمائی، تاکہ وہ سارے جہانوں کے لیے ڈرانے والے بنیں]۔
جن باتوں پر یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے، ان کا ذکر کرتے ہوئے علامہ
[1] یعنی اس پر زبر آئی ہے۔
[2] المحرَّر الوجیز ۱۳/۱۳۸۔
[3] مکمل حدیث اور اس کا حوالہ اس کتاب کے صفحات۴۰۔۴۱ پر دیکھیے۔
[4] المحّرر الوجیز ۱۳/۱۳۸۔۱۳۸؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۵/۲۹۱۔۲۹۲؛ وتفسیر الخازن ۵/۲۹۱۔۲۹۲؛ وتفسیر ابن کثیر ۳/۵۹۲؛ والتحریر والتنویر ۲۲/۱۹۷۔۱۹۹؛ وتفسیر القاسمي ۱۴/۲۵۔
[5] سورۃ الفرقان / الآیۃ ۱۔