کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 42
رسول ہیں۔[1]
قاضی بیضاوی رقم طراز ہیں: ’’(اس آیت شریفہ میں ) خطاب عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب جن و انس کے لیے مبعوث کئے گئے اور باقی رسول اپنی اپنی قوم کی جانب بھیجے جاتے تھے۔ [جَمِیْعًا] (یعنی سب) [کا لفظ] [إِلَیْکُمْ] (تمہاری طرف) کے لیے حال ہے [مراد یہ ہے، کہ تم سب کی جانب]‘‘ [2]
شیخ قاسمی نے قلم بند کیا ہے: ’’آیت [شریفہ] اس بات پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سرخ، سیاہ، عربی اور عجمی [سب] لوگوں کے لیے ہے۔‘‘[3]
ج: ارشادِ باری تعالیٰ:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ}[4]
[اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے]
علامہ ابن عطیہ اندلسی آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے، کہ بلاشبہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ اور [کَآفَّۃً] سے مراد تمام کے تمام لوگ ہیں۔‘‘[5]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲/۲۸۳۔
[2] تفسیر البیضاوی ۱/۳۶۳؛ نیز ملاحظہ ہو: الکشاف ۲/۱۲۳؛ وتفسیر أبي السعود ۳/۲۸۱۔
[3] تفسیر القاسمي ۷/۲۷۹۔
[4] سورۃ سبأ / الآیۃ ۲۸۔
[5] المحرّر الوجیز ۱۳/۱۳۸۔