کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 40
علامہ الوسی تحریر کرتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل ترین صورت میں مدافعت کے بعد [اس آیت میں ] آپ کے اپنے رب تعالیٰ کے ہاں عظیم مقام و مرتبہ کو بیان کیا جارہا ہے۔
اور اس میں اس شخص کی بھی تردید کی گئی ہے، جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو صرف عرب کے لیے سمجھتا ہے۔ [النّاس] میں الف لام استغراق کے لیے ہے یعنی تمام بنی نوع انسان کے لیے۔[1]
تنبیہ:
آیت کریمہ میں [لِلنَّاسِ] کو [رَسُوْلًا] سے پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ الوسی لکھتے ہیں: [رَسُوْلًا] کے متعلق جار [لِلنَّاسِ] کو اس پر مقدم کیا گیا ہے، تاکہ یہ حقیقت اجاگر ہوجائے، کہ وہ عموم انسانیت کے لیے رسول بنا کر مبعوث کئے گئے ہیں [صرف] کچھ لوگوں کی طرف نہیں، جیسا کہ بعض لوگ [غلط طور پر] سمجھتے ہیں۔[2]
ب: ارشادِ باری تعالیٰ:
{قُلْ یٰٓا أَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ}[3]
[1] روح المعاني ۵/۹۰۔۹۱؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الخازن ۱/۵۶۲؛ وتفسیر أبي السعود ۲/۲۰۶؛ وفتح القدیر ۱/۷۳۹ ؛ وتفسیر القاسمي ۵/۳۱۸۔
[2] ملاحظہ ہو: روح المعاني ۵/۹۱۔
[3] سورۃ الأعراف / الآیۃ ۱۵۸۔