کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 36
وَحَقَّقَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَہُ رَجَائَہُ فَکَانَ أَکْثَرُ الْأَنْبِیَائِ تَابِعًا۔[1]
معنی یہ ہے، کہ بلاشبہ ہر نبی کی کسی نہ کسی معجزے سے تائید کی گئی، جو کہ اس کی رسالت کی صحت پر دلالت کرتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی سچائی ظاہر ہوتی ہے اور حجت پوری ہوتی ہے، لیکن ان [یعنی سابقہ انبیاء علیہم السلام ] کے معجزات ان کے ختم ہوجانے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ ان کی رحلت کے بعد صرف ان (معجزات) کی خبر باقی رہ جاتی ہے اور بسا اوقات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ خبر بھی چھپ جاتی ہے۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو، اگرچہ (سابقہ) انبیاء علیہم السلام کو دیے جانے والے تمام اقسام کے معجزات کی مانند معجزات عطا کیے گئے، لیکن انہیں ان سب پر ،جب تک دنیا باقی ہے، اس وقت تک باقی رہنے والے عظیم معجزے کے ساتھ فضیلت دی گئی اور وہ (معجزہ) کتاب عزیز ہے، جس کی ایک سورت نے ہی جن و انس کو [اس کا مقابل لانے سے] شدید عاجز کردیا ہے۔ اس کا اعجاز آنکھوں کے سامنے ہے، ہر آنے والے دن اور رات میں اس کے اعجاز کے نئے نئے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔
پس اب جو کوئی اس کی صداقت میں شک کرے گا، اس سے کہا جائے گا: ’’اس کی مانند ایک سورت لاؤ۔‘‘
جب یہ معجزہ پشتوں کو توڑنے والا اور ہمیشہ باقی رہنے والا تھا، تو اس کو پہچاننے میں متقدمین اور متاخرین شریک ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت میں اگلے پچھلے برابر ہیں۔ اسی لیے عقل والے یکے بعد دیگرے ان کے دین میں داخل ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امید کو پورا فرمایا اور ان کے پیروکار تمام انبیاء علیہم السلام کے پیروکاروں سے زیادہ ہیں۔
[1] ملاحظہ ہو: المفہم ۶/۵۰؛ نیز ملاحظہ ہو: شرح النووی ۲؍۱۸۸؛ وشرح الطیبي ۱۱/۲۶۳۵؛ وفتح الباري ۹/۷ و ۱۳/۲۴۸ ؛ ومرقاۃ المفاتیح ۱۰/۱۲۔۱۳۔