کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 34
(۱)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ہمیشہ کے لیے باقی رہنا
اسلام کے عالم گیر مذہب ہونے کے دلائل میں سے ایک یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو سب سے عظیم معجزہ عطا فرمایا، اس کی نوعیت تمام انبیائے سابقین علیہم السلام کے معجزات سے مختلف ہے۔ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات وقتی تھے، جو کہ ان کے دنیا میں رہنے تک ان کے ساتھ باقی رہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے والا عظیم معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے صدیوں بعد تک موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ موجود رہے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی معجزات عطا فرمائے! چھڑی کا اژدھا بن جانا، بغل میں سے ہاتھ نکالنے پر اس کا روزِ روشن کی طرح واضح ہونا، پتھر پر چھڑی مارنے سے اس سے بارہ چشموں کا پھوٹنا، دریا میں لاٹھی مارنے سے بنو اسرائیل کے لیے راستے کا بننا وغیرہ۔ اسی طرح حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کتنے زیادہ تھے! مادر زاد اندھے اور پھلبہری والے کا ان کے ہاتھ پھیرنے سے شفایاب ہونا، مردے کو قم باذن اللّٰہ [اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوجاؤ] کہنا اور اس کا زندہ ہوجانا، گھروں میں لوگ جو کھا کر آئے اور جو پیچھے چھوڑ آئے، اس کی خبر دینا وغیرہ۔ لیکن یہ سب معجزات اور اسی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے تمام معجزات وقتی تھے۔
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنَ الْأَنْبِیَائِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِيْ أُوْتِیْتُہُ وَحْیًا أَوْحَی اللّٰہُ إِلَيَّ، فَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ أَکْثَرَھُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘۔[1]
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحي وأول ما نزل، رقم الحدیث ۴۹۸۱، ۹/۳؛ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم إلی جمیع الناس ونسخ الملل بملتہ، رقم الحدیث ۲۳۹۔(۱۵۲)؛ ۱/۱۳۴۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔