کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 28
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ} [1] [تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو، بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو] اللہ تعالیٰ نے امت کی اسی حیثیت کے ساتھ اپنی نصرت و تائید کو مربوط فرمادیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: { ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنصُرُوا اللّٰہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ} [2] [اے ایمان والو! اگر تم اللہ تعالیٰ (کے دین) کی مدد کرو گے، تو وہ تمہاری مدد کریں گے اور تمہیں ثابت قدم رکھیں گے] [3] امتِ اسلامیہ کی اسی حیثیت کے متعلق خود اپنے آپ کو اور مسلمان بہن بھائیوں کو یاد دہانی کی غرض سے توفیق الٰہی سے اس کتاب میں درج ذیل تین سوالوں کے جواب دینے کا عزم کیا ہے: ۱: دعوتِ اسلامیہ کن کے لیے ہے؟ ۲: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کن لوگوں کو دعوتِ دین دی؟ ۳: اس بارے میں پیش کردہ شبہات کی حقیقت کیا ہے؟ کتاب کی تیاری میں پیش نظر باتیں: اس سلسلے میں توفیق الٰہی سے درج ذیل باتوں کے اہتمام کی مقدور
[1] سورۃ آل عمران/جزء من الآیۃ ۱۱۰۔ [2] سورۃ محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم /الآیۃ ۷۔ [3] مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب ’’فضائل دعوت‘‘ صفحات ۸۲۔۸۸۔