کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 229
بالکل نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحد استطاعت یہ دعوت عرب و عجم میں پھیلائی۔ شاہ روم کو دعوتِ اسلام دی، شاہِ ایران کو قبولِ اسلام کا پیغام بھیجا۔ نہ صرف یہی بلکہ ہر جابر کو دعوتِ اسلام کی خاطر لکھا۔[1] ہم اس شبہ کے پیش کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ جدوجہد قرآن کریم کی منشا کے مطابق تھی یا مخالف؟ آئیے ہم قرآن کریم ہی سے اس کا جواب حاصل کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا}[2] [یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کرتا ہے] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کی درستگی اور حجیت پر مہر تصدیق ثبت فرما دی ہے۔ خلاصۂ گفتگو یہ ہے، کہ شبہ میں مذکورہ آیات سے استدلال کرتے ہوئے دعوتِ اسلام کو عربوں میں محصور کرنا قطعی طور پر غلط ہے اور اس کا سبب یا تو لاعلمی اور جہالت ہے اور یا اسلام سے بغض و عداوت۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت نصیب فرمائیں۔ آمین یاحي یا قیوم۔ 
[1] اس سلسلے میں تفصیل اس کتاب کے مبحث دوئم میں گزر چکی ہے۔ [2] سورۃ الأحزاب / الآیۃ ۲۱۔