کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 223
سیکھیں، یہاں تک ،کہ میں (ان کے نام) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھتا تھا اور جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھتے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (ان کے خطوط) پڑھ کر سناتا تھا۔‘‘] دوسری صورت کی عصر صحابہ سے ایک مثال امام بخاری نے حضرت ابوجمرہ کے حوالے سے روایت کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کُنْتُ أُتَرْجِمُ بَیْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰه عنہما وَبَیْنَ النَّاسِ۔‘‘[1] ’’میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمہ کیا کرتا تھا۔‘‘ امام بخاری نے ہی ایک دوسرے مقام پر حضرت ابوجمرہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللّٰه عنہما یُجْلِسُنِيْ عَلٰی سَرِیْرِہِ، فَقَالَ: ’’أَقِمْ عِنْدِيْ، حَتَّی أَجْعَلَ لَکَ سَہْمًا مِنْ مَالِيْ۔‘‘ [فَأَقَمْتُ مَعَہُ شَہْرَیْنِ۔]‘‘[2] [’’میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا، وہ مجھے اپنے پلنگ پر بٹھاتے تھے اور انہوں نے مجھے فرمایا: ’’میرے پاس رہو، میں تمہارے لیے اپنے مال میں سے ایک حصہ مقرر کروں گا۔‘‘ [تو میں ان کے ساتھ دو ماہ رہا۔‘‘] حافظ ابن حجر لکھتے ہیں، کہ کہا گیا ہے، کہ ابو جمرہ فارسی جانتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما (کی گفتگو) کا فارسی میں ترجمہ کرتے تھے۔[3]
[1] صحیح البخاري ، کتاب العلم ، باب تحریض النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وفد عبدالقیس علی أن یحفظوا الإیمان…، جزء من رقم الحدیث ۸۷، ۱؍۸۳۔ [2] المرجع السابق، کتاب الإیمان، باب أداء الخمس من الإیمان، جزء من رقم الحدیث ۵۳، ۱/۱۲۹۔ [3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱/۱۳۰۔