کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 219
انکاری تھے (سورۃ النحل آیات ۴۳و ۱۱۴) اور نومسلموں کو انتہائی اذیت دی جارہی تھی، تاکہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں (سورۃ النحل آیۃ ۱۰۸) اور دیگر مسلمان اپنے دشمنوںکے غیظ و غضب سے بچنے کے لیے اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، آزمائش کی ایسی گھڑی میں اللہ (تعالیٰ) کی طرف سے یہ وعدہ آیا کہ: {وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا}۔ (النحل:۸۴)۔ (اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ قائم کریں گے)‘‘ [1] پروفیسر آرنلڈ مندرجہ بالا اقتباس کے نیچے حاشیہ میں تحریر کرتے ہیں: ’’یہ عجب بات معلوم ہوتی ہے، کہ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات[2] کے باوجود بعض لوگوں نے اس امر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، کہ بانیٔ اسلام کا ابتداء ہی سے یہ منشا تھا، کہ اسلام تمام خلائق کا مذہب ہو۔‘‘[3] گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کا عقیدہ حالات کی پیداوار نہیں، بلکہ ابتدائے بعثت ہی سے یہ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ قرآن کریم کی بیسیوں آیات اس عقیدے کو وضاحت سے بیان کرتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں نازل کردہ آیات میں بھی اس معاملے میں کسی قسم کا ابہام یا الجھاؤ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث شریفہ میں اس عقیدے کو واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا، کرہ ارض پر اشاعت اسلام کی بشارتیں دیں اور تاحد ِاستطاعت
[1] دعوتِ اسلام ص ۳۴۔ [2] پروفیسر آرنلڈ کا اشارہ آیت شریفہ {وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا} اور اسلام کی عالمگیریت پر دلالت کرنے والی چھ دیگر آیات کریمہ کی طرف ہے، جو کہ انہوں نے اس سے پہلے اپنی کتاب میں نقل کی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ص ۳۳)۔ [3] المرجع السابق ص ۳۴، حاشیہ ۱۔