کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 215
الترمذی] کے مقدمہ میں ایک فصل کا درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
’’الفصل السادس في أنّ حَمَلَۃَ الْعِلْمِ فِيْ الْإِسْلَامِ أَکْثَرُھُمْ الْعَجْمُ۔‘‘[1]
[چھٹی فصل کہ بلاشبہ اسلام میں اکثر اہل علم عجمی تھے]
پھر اسی فصل کے آغاز میں لکھتے ہیں:
’’یہ حیران کن حقیقت ہے، کہ شرعی اور عقلی علوم میں ملت اسلامیہ کے علماء کی اکثریت عجمی تھی، شاذو نادر ہی کوئی دوسرا ہوگا۔‘‘[2]
انہی عجمی حضرات نے اسلام اور علوم اسلامیہ کی انتہائی قابل قدر خدمت کرنے کی بدولت مذہبی سیادت و قیادت پائی۔ امام ابن الصلاح کا نقل کردہ درج ذیل واقعہ اس حقیقت کو خوب واضح کرتا ہے:
(امام) زہری نے بیان کیا: ’’میں عبد الملک بن مروان کے ہاں پہنچا، تو اس نے دریافت کیا:
’’اے زہری! کہاں سے آرہے ہو‘‘؟
میں نے جواب دیا: ’’مکہ (مکرمہ) سے۔‘‘
اس نے کہا: ’’کس کو اس (یعنی مکہ) کے رہنے والوں کی سیادت کرتے چھوڑ کر آئے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’عطاء بن ابی رباح۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’تو وہ عرب سے ہے یا عجم سے؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’عجم سے ہے۔‘‘
[1] تحفۃ الأحوذی، المقدمۃ ، ۱/۳۸۔
[2] المرجع السابق ا/۳۸۔