کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 207
ان کے سردار کے ہاں تشریف لے جاکر خود دعوت دی،
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہود خیبر کو لڑائی سے پہلے دعوت دینے کی تلقین فرمائی،
نصرانی عدی بن حاتم[1] کو دعوت اسلام دی،
شاہ روم قیصر اور دومہ کے اکیدر کو مکاتیب گرامی ارسال فرمائے،
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کے یہود و نصاریٰ کو دعوت دین دینے کے لیے مبعوث فرمایا،
مجوسیوں کو دعوتِ اسلام دینے کی خاطر شاہ ایران کو مکتوب گرامی بھیجا،
حبشہ کے حاکم کو چٹھی ارسال فرمائی اور ہر جابر کو دعوتِ اسلام کے لیے لکھا۔[2]
یہ ساری مبارک کدوکاوش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اسلام کے عالمی مذہب کے واضح تصور ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے، یا اس تصور کے دھندلا ہونے کا؟ فما لہولاء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا؟[3]
پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں:
اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ عالم گیر ہے اور تمام لوگوں اور قوموں پر حاوی ہے، اس کی عملی مثال ان مراسلات میں ملتی ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ھ مطابق ۶۸۸ء میں اپنے زمانے کے حکمرانوں کو بھیجے تھے چنانچہ اسی سال میں قیصر روم ہرقل، شاہ ایران، حاکم یمن، مقوقس مصر اور نجاشی حبشہ کے نام مراسلات بھیجے گئے اور انہیں قبول اسلام کی دعوت د ی گئی۔
یہ خطوط، جو سلاطین کو بھیجے گئے، اسلام کے اس دعوے کا کھلا اعلان کرتے ہیں،
[1] دعوت کے نتیجہ میں توفیق الٰہی سے مسلمان ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ
[2] ان سب باتوں کی تفصیل اور حوالہ جات اس کتاب کے مبحث دوئم میں گزر چکے ہیں۔
[3] اس قوم کو کیا ہوچکا ہے، کہ بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے؟