کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 204
۲: ولیم میور کا یہ کہنا کہ [اسلام کا تمام دنیا کے لیے ہونے کا خیال بعد کے حالات کی پیداوار ہے] کیوںکر درست ہوسکتا ہے، جب کہ اس حقیقت کا بیان قرآن کریم کی مکی سورتوں میں ہے۔ ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائے:
ا: سورۃ القلم میں ہے: {وَمَا ہُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ }[1] [اور نہیں ہے وہ مگر نصیحت تمام جہانوں کے لیے] اور سورۃ القلم مکی سورت ہے، بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے، کہ وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی تیسری سورت ہے۔ پہلی سورت [اقرأ باسم ربک الذي خلق] اور دوسری [النون] [2] تو اس طرح اسلام کے ابتدائی دور میں ہی یہ حقیقت اجاگر کی
گئی، کہ قرآن کریم سب جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔
ب: سورۃ التکویرمیں ہے: {وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَجِیْمٍ فَاَیْنَ تَذْہَبُوْنَ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ} [3] [وہ ہرگز کسی مردود شیطان کا کلام نہیں، پس تم کہاں جارہے ہو؟ یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں، کہ جہانوں کے لیے نصیحت ہے] اور یہ بھی مکی سورت ہے۔[4]
ج: سورۃ الأعراف میں ہے: {قُلْ یٰٓا أَ یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا} [5] [کہہ دیجیئے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں] اور یہ بھی مکی سورت ہے۔[6]
د: سورۃ الفرقان میں ہے: {تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا} [7] [بہت برکت والے ہیں وہ جنہوں نے اپنے
[1] الآیۃ ۵۲۔
[2] ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۵/۳۷۲۔۳۷۳۔
[3] الآیات ۲۵۔۲۷۔
[4] ملاحظہ ہو: فتح القدیر ۵/۵۴۶؛ وتفسیر القاسمي ۱۷۔۶۲۔
[5] جز من الآیۃ ۱۵۸۔
[6] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۳/۱۶۴؛ وتفسیر القرطبی ۷/۱۶۰۔
[7] الآیۃ ۱۔