کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 203
I: ان کی کل کائنات عرب تک محدود تھی۔ II: یہ دین اسی ملک کے لیے مخصوص تھا۔ III: اول تا آخر تک اہل عرب ہی کو دعوت دی گئی۔ مذکورہ بالا شبہ کے دلائل کی حقیقت سمجھنے کی خاطر قارئین کرام کی توجہ درج ذیل حقائق کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں: ۱: اسلام کے تمام دنیا کے لیے دین ہونے کے عقیدے کا بیان صرف احادیث ہی نہیں کرتیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بیسیوں آیات شریفہ بھی اس کو واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں بیس سے زیادہ مرتبہ {یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ} (اے لوگو) کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے، بارہ مرتبہ سے زیادہ {یٰٓاَہْلَ الْکِتٰب} (اے اہل کتاب) کے ساتھ خطاب کیا گیا۔ گزشتہ صفحات میں اٹھارہ آیات ذکر کی گئی ہیں، جن میں یہ بیان کیا گیا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب جہانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبیین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لیے نصیحت ہے، اس میں متعدد مقامات پر سب لوگوں سے خطاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کرہ ارض پر موجود تمام لوگوں پر آپ کی امت میں شامل ہونا فرض ہے۔[1] شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’اور قرآن (کریم) میں اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ، مشرک، بت پرستوں اور تمام انسانوں اور جنوں کو اس قدر کثرت سے دعوت دی گئی ہے، کہ اس کا آسانی سے شمار کرنا ممکن نہیں۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو: اس کتاب کا مبحث اوّل۔ [2] الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح علیہ السلام ۱/۱۱۲۔