کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 195
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]۔ حدیث سے معلوم ہونے والی چار باتیں: ۱: بسا اوقات کسی برائی پر وقتی طور پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے، کیونکہ فوری طور پر اس سے روکنے سے اس سے بڑی برائی کا خدشہ ہوتا ہے۔ بدو کے پیشاب کی گندگی محدود جگہ پر تھی۔ روکنے کی صورت میں اس گندگی کے اثرات اس کے جسم، کپڑوں اور مسجد میں زیادہ جگہوں پر پہنچنے کا امکان تھا اور اس وجہ سے… واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسے کچھ نہ کہنے کا حکم دیا۔ ۲: برائی سے ہر روکنے والا درست نہیں ہوتا۔ حضرات صحابہ کا اس وقت روکنا درست نہیں تھا، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بدّو کو روکنے سے منع فرما دیا تھا، کیونکہ ان کے روکنے سے متعدد برائیوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ ۳: برائی پر وقتی طور پر خاموشی کا معنی نہ تو اس پر رضا مندی ہے اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے اس پر احتساب نہ کرنا ہے۔ بلکہ مناسب وقت پر ٹھیک انداز سے احتساب ضروری ہے۔ ۴: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو کو انتہائی نرمی اور شفقت سے احترامِ مسجد کی تلقین فرمائی۔ امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [ذِکْرُ الْبِیَانِ بِأَنَّ قَوْلَ الْمُصْطَفٰی صلی اللّٰه علیہ وسلم (دَعُوْہُ) أَرَادَ بِہٖ التَّرَفُّقَ لِتَعْلِیْمِہِ مَالَمْ یَعْلَمْ مِنْ دِیْنِ اللّٰہِ وَأَحْکَامِہِ] [1] [اس بات کا بیان، کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد [اس کو چھوڑ دو] کا مقصود یہ تھا، کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے احکام، جنہیں وہ نہیں جانتا تھا، کی
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان ۴/۲۴۶۔