کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 193
یَدِہِ صَلْتًا، فَقَالَ لِيْ: ’’مَنْ یَمْنَعُکَ؟‘‘[1] ’’بے شک اس نے میری نیند ہی کے دوران میری تلوار کو نیام سے نکالا۔ میں بیدار ہوا، تو وہ اس کے ہاتھ میں بے نیام تھی۔ پھر اس نے مجھ سے کہا: ’’تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ حدیث سے معلوم ہونے والی تین باتیں: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ اطہر میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی تڑپ کس قدر شدید تھی، کہ قتل کی دھمکی دینے والے پر قابو پانے کے بعد اس کو توحید و رسالت کے اقرار کی دعوت دی۔ ۲: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت و شفقت اور عفو و درگزر میں کس قدر بلندی پر فائز تھے! معاذ اللہ! جان سے ختم کرنے کی دھمکی دینے والے کی گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔ دعوتِ اسلام قبول کرنے سے اس کے انکار پر بھی انتقام نہیں لیتے، بلکہ بلا سزا چھوڑ دیتے ہیں اور اس دشمن نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کتنا خوب صورت جملہ کہا: ’’جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ۔‘‘ ’’(اے میری قوم!) میں تمہارے پاس لوگوں میں سے بہترین انسان کے ہاں سے آیا ہوں۔‘‘ اور رب ذوالجلال کی قسم! یقینا وہ بہترین انسان تھے۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔ ۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بدو کو دعوت دین دی۔
[1] صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ ذات الرقاع، جزء من رقم الحدیث ۴۱۳۵، ۷/۴۲۶۔