کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 190
’’تُسَبِّحُوْنَ، وَتُکَبِّرُوْنَ وَتَحْمَدُوْنَ دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ مَرَّۃً…‘‘الحدیث[1] [’’تم ہر (فرض) نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو…الحدیث] اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیر مہاجرین کو وہ چیز سکھلائی، کہ جس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے مال دار صحابہ کا مقام و مرتبہ پاسکتے تھے اور دوسرے لوگوں پر سبقت لے سکتے تھے۔ (۱۷) بدؤوں کو دعوتِ دین بدو لوگ [2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے۔ اسی طرح دوران سفر بھی ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ایسے مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام قبول کرنے اور دیگر دینی باتوں کی دعوت دیتے۔ اس بارے میں توفیق الٰہی سے تین مثالیں پیش کی جارہی ہیں: ا: ارادہ قتل کرنے والے بدو کو دعوتِ اسلام: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ہم (غزوہ) ذات الرقاع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم ایک
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ، جزء من رقم الحدیث ۸۴۳، ۲/۳۲۵؛ وصحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، وبیان صفتہ، جزء من رقم الحدیث ۱۴۳۔ (۵۹۵)، ۱/۴۱۶۔۴۱۷۔ الفاظِ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔ [2] خانہ بدوش لوگ