کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 188
کہ انہوں نے بیان کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ الْفُقَرَائِ! أَلَا أُبَشِّرُکُمْ أَنَّ فُقَرَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَائِہِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ، خَمْسِمِائَۃَ عَامٍ۔‘‘[1] [’’اے گروہ فقراء! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں، کہ اہل ایمان کے فقراء ان کے مالداروں سے نصف دن (یعنی) پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوجائیں گے‘‘] اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیر اہل ایمان کو ایک عظیم الشان بشارت سے نوازا ہے۔ علامہ طیبی اس کا سبب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’مال داروں کو حساب کے لیے روکا جائے گا، کہ انہوں نے مال کو کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، لیکن فقیروں کے پاس تو دنیا میں مال نہ تھا، تو ان سے اس بارے میں کیا حساب ہوگا؟‘‘[2] علامہ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبر کرنے والے نیک فقراء اور مال کے حقوق ادا کرنے والے شکر گزار اغنیاء (دونوں) کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے۔‘‘[3] ج: مہاجر فقراء کو سابقین کے درجات پالینے والی بات کی تعلیم: امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ
[1] سنن ابن ماجہ، أبواب الز ھد، منزلۃ الفقراء، جزء من رقم الحدیث ۴۱۷۶، ۲/۴۱۲؛ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم الحدیث ۷۸۵۳۔۳۵۴۱، ۶/۳۰۵۔۳۰۶)۔ [2] شرح الطیبي ۵/۱۶۸۶۔ [3] المرجع السابق ۵/۱۶۸۶۔