کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 182
[’’بے شک قیامت کے دن تاجر لوگ نافرمانوں کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے مگر جس نے تقویٰ اختیار کیا، نیکی اور سچ بولا۔‘‘]
حدیث شریف سے معلوم ہونے والی چار باتیں:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں تاجروں کو دعوتِ دین دی۔
۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا آغاز کرنے سے پیشتر [یا معشرَ التُّجَّار!] فرما کر ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔
۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب لوگوں کی صورتِ حال کی مناسبت سے گفتگو فرمائی۔
۴: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پیغام انتہائی مختصر اور جامع الفاظ میں پہنچا دیا۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔
ج: تاجروں کو سچ گوئی کی تلقین:
حضرات ائمہ احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
کُنَّا قَوْمًا نُسَمَّی السَمَا سِرَۃَ، وَکُنَّا نَبِیْعُ بِالْبَقِیْعِ، فَأَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَسَمَّانَا بِأَحْسَنَ مِنَ اسْمِنَا، فَقَالَ: