کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 181
حدیث شریف سے معلوم ہونے والی تین باتیں: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بازار میں دعوت دین کے لیے نکلنا۔ ۲: دعوتِ دین میں مخاطب لوگوں سے متعلقہ موضوع کے بارے میں گفتگو کرنا۔ ۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح بازار تشریف لے جانا ایک آدھ مرتبہ کی بات نہ تھی، بلکہ الفاظ حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غرض سے کثرت سے وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ب: تاجروں کو تقویٰ، نیکی اور سچ گوئی کی تلقین: حضرات ائمہ ترمذی، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے اسماعیل بن عبید بن رفاعہ بن رافع الزرقی سے روایت نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ (طیبہ) کی عیدگاہ کی جانب روانہ ہوئے، تو وہاں لوگوں کو خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ!‘‘ ’’اے تاجرو!‘‘ وہ (لوگ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہمہ تن گوش ہوئے اور انہوں نے اپنی نگاہوں اور گردنوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقٰی وَبَرَّ وَصَدَقَ۔‘‘[1]
[1] جامع الترمذي، أبواب البیوع، باب ما جاء في التجار وتسمیۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ، إیاھم، رقم الحدیث ۱۲۲۸، ۴/۳۳۵۔۳۳۶؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب البیوع، ذکر إثبات الفجور للتجار الذین لا یتقون اللّٰه في بیعہم وشرائہم، رقم الحدیث ۴۹۱۰، ۱۱/۲۷۶۔۲۷۷؛ والسنن الکبری، کتاب البیوع، باب کراھیۃ الیمین في البیع، رقم الحدیث ۱۰۴۱۴، ۵/۴۳۶؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲/۶۔ الفاظ حدیث السنن الکبری اور المستدرک کے ہیں۔ امام ترمذی نے اس کو [حسن صحیح] کہا ہے۔ امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح لغیرہ] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۴/۳۳۶، والمستدرک ۲/۶؛ والتلخیص ۲/۶؛ وصحیح الترغیب والترھیب ۲/۳۴۲)۔