کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 180
میں ہر ایک کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔‘‘[1]
۲: بسا اوقات نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے کو ناگوار صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر دعوت دینے والے کو تحمل اور نرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بردباری اور تواضع، کہ خاتون کا ناگوار جواب سننے کے باوجود ،اس کو کچھ نہ کہا۔
(۱۵)
تاجروں کو دعوتِ دین
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تاجروں کو دعوتِ دین دینے کا بھی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ اس بارے میں ذیل میں چار مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
ا: تاجروں کو جھوٹ سے بچنے کا حکم:
امام طبرانی نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَخْرُجُ إِلَیْنَا وَکُنَّا تُجَّارًا، وَکَانَ یَقُوْلُ:
’’یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ! إِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ۔‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لایا کرتے تھے اور ہم تجارت کرتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’اے تاجرو!، جھوٹ سے بچو۔‘‘
[1] شرح النووي ۶/۲۲۴۔
نوٹ: اس بارے میں ایک اور مثال: [آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی صاحبزادی کو حالت نزع میں موجود نواسے کے فوت ہونے پر صبر کی تلقین کرنا]ملاحظہ ہو: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد‘‘ ص ۱۵۰۔