کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 179
’’اتَّقِي اللّٰہ وَاصْبِرِيْ۔‘‘
[’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور صبر کرو‘‘]
وہ کہنے لگی:
’’وَمَا تُبَالِيْ بِمُصِیْبَتِيْ۔‘‘
’’تمہیں تو میری مصیبت کی پروا نہیں۔‘‘
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے) تشریف لے گئے، تو اس سے کہا گیا:
’’إِنَّہُ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔‘‘
’’یقینا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘
تو یہ (خبر) اس پر موت کی مانند آئی[1] پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی اور وہاں دربان نہ دیکھے اور اس نے عرض کیا:
’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! لَمْ أَعْرِفْکَ۔‘‘
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَۃِ۔‘‘[2]
’’یقینا صبر تو وہی ہے، جو صدمہ کے شروع میں ہو۔‘‘
حدیث سے معلوم ہونے والی تین باتیں:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت زدہ عورت کو بین وغیرہ کرنے سے منع فرمایا۔ امام نووی حدیث شریف کے فوائد ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ’’اس
[1] یعنی اس کو معلوم کرکے اس قدر صدمہ ہوا، جس قدر موت کی وجہ سے صدمہ پہنچتا ہے۔
[2] صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب في الصبر علی المصیبۃ عند الصدمۃ الأولی، رقم الحدیث ۱۵۔ (۹۲۶)، ۲/۶۳۷۔۶۳۸۔