کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 178
تو میں ان پر رونے کے لیے تیار ہوچکی تھی، کہ مدینہ کے مضافات سے ایک عورت آئی اور وہ (رونے میں ) میری مدد کرنا چاہتی تھی۔ (راستے میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ملے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَ تُرِیْدِیْنَ أَنْ تُدْخِلِي الشَّیْطَانَ بَیْتًا أَخْرَجَہُ اللّٰہُ مِنْہُ مَرَّتَیْنِ؟‘‘ [’’کیا تو شیطان کو اس گھر میں داخل کرنا چاہتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وہاں سے دو مرتبہ[1] نکالا ہے؟] (ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا): ’’فَکَفَفْتُ عَنِ الْبُکَائِ فَلَمْ أَبْکِ۔‘‘[2] ’’پس میں رونے سے رک گئی اور میں نہ روئی۔‘‘ حدیث سے معلوم ہونے والی دو باتیں: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت پر نوحہ کرنے سے روکا۔ ۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کا سبب بھی بیان فرمایا، کہ نوحہ کی بنا پر شیطان گھر میں داخل ہوتا ہے۔ ب: خاتون کو بیٹے کی وفات پر صبر کا حکم: امام مسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے، جو کہ اپنے بچے (کی وفات) پر رو رہی تھی۔[3]آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
[1] دو دفعہ نکالنے سے مراد شاید یہ ہے، کہ ایک دفعہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے خالص اسلام سے اور دوسری دفعہ ان کی بہترین ہجرت سے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ملاحظہ ہو: المفہم ۲/۵۷۴۔۵۷۵)۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت، رقم الحدیث ۱۔(۹۲۲)، ۲/۶۳۵۔ [3] عورت کے رونے سے مراد ایسا رونا ہے، جس کے ساتھ آواز کو بلند کرنا یا اس کے علاوہ بین وغیرہ کرنا شامل تھا، کیوں کہ مصیبت پر صرف رونے کی تو ممانعت نہیں۔ (ملاحظہ ہو: المفہم ۲/۵۷۹)۔