کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 174
’’خَیْرٌ لِيْ؟‘‘ [’’(کیا یہ کہنا) میرے لیے بہتر ہے؟‘‘[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ حدیث سے معلوم ہونے والی چار باتیں: ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کے دوران حاصل ہونے والے موقع کو دعوت دین کے لیے استعمال فرمایا۔ ۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ توحید دی، کہ دعوتِ دین کی اساس، بنیاد اور نقطہ آغاز یہی دعوت ہے۔ ۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مریض شخص کو [یَا خَال] [اے ماموں] کے الفاظ کے ساتھ مخاطب کرکے ان کے جذبات کو ابھارا۔ ۴: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی موقع پر ایک سے زائد مرتبہ دعوت دی۔ فصلوات ربي وسلامہ علیہ۔ ب: بیمار عورت کو صبر کی ترغیب: امام بخاری اور امام مسلم نے عطاء بن ابی رباح سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے کہا: ’’مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں۔ (ضرور دکھلائیے)۔‘‘
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۲۵۴۳، ۲۰/۱۸؛ ومسند أبي یعلی الموصلي، رقم الحدیث ۷۵۷۔ (۳۵۱۲)، ۶/۲۲۷؛ والأحادیث المختارۃ، رقم الحدیث ۱۶۴۱، ۵/۳۵۔۳۶۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ حافظ ہیثمی نے لکھا ہے: ’’اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راویان صحیح کے روایت کرنے والے ہیں۔‘‘ مسند ابی یعلی اور الأحادیث المختارۃ کے محققین نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۵/۳۰۵؛ وھامش مسند أبي یعلی ۶/۲۲۷؛ وھامش المختارۃ ۵/۳۵)۔