کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 172
’’میں بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور میرا ہاتھ (کھاتے وقت) برتن میں گھومتا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’یَا غُلَامُ! سَمِّ اللّٰہَ، وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ، وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ۔‘‘ ’’اے لڑکے! بسم اللہ پڑھ لیا کرو، دائیں [ہاتھ] سے کھایا کرو اور اس [جگہ] سے کھاؤ، جو تمہارے قریب ہو۔‘‘ ’’فَمَا زَالَتْ طِعْمَتِيْ بَعْد۔‘‘[1] ’’اس کے بعد میرے کھانے کا طریقہ یہی رہا۔‘‘ اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن أبی سلمۃ رضی اللہ عنہما کو ان کے لڑکپن میں کھانے کے آداب کی تعلیم دی۔ انہوں نے خود بیان کیا: ’’کُنْتُ غُلَامًا‘‘ [میں بچہ تھا] حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: یعنی بالغ ہونے سے پہلے، پیدائش سے لے کر بالغ ہونے تک بچے کو [غلام] کہتے ہیں۔[2] امام قرطبی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: اس میں بچوں کو ان کے متعلقہ دین کی ضروری باتیں اور آداب سکھلانے کا ثبوت ملتا ہے۔[3] (۱۳) مریضوں کو دعوتِ دین دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں کی عیادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اور
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام والأکل بالیمین، رقم الحدیث ۵۳۷۶، ۹/۵۲۱؛ وصحیح مسلم، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامہما، رقم الحدیث ۱۰۸ (۲۰۲۲)، ۳/۱۵۵۹۔ الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔ [2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۹/۵۲۱۔ نوٹ: اس بارے میں مزید مثالیں راقم السطور کی کتاب [بچوں کا احتساب] اور [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم] صفحات ۷۷۔۷۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔ [3] ملاحظہ ہو: المفہم ۵/۲۹۷۔ ۲۹۸۔