کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 170
امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابٌ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ ھَلْ یُصَلَّي عَلَیْہِ؟ وَھَلْ یُعْرَضُ عَلَی الصَّبِيِّ الْإِسْلَامُ؟][1] [(اس بارے میں ) باب کہ جب بچہ مسلمان ہوکر فوت ہوجائے ، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا بچے پر اسلام پیش کیا جائے گا؟] ایک اور مقام پر امام بخاری نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان لکھا ہے: [بَابُ کَیْفَ یُعْرَضُ الْإِسْلَامُ عَلَی الصَّبِيِّ؟][2] [(اس بارے میں ) باب کہ بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے گا؟] امام بخاری کے دونوں عنوانات کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: [کیا بچے پر اسلام پیش کیا جائے گا؟] اس مقام پر انہوں [یعنی امام بخاری] نے سوالیہ انداز میں عنوان ذکر کیا ہے اور کتاب الجہاد میں ایسے انداز میں ذکر کیا ہے، جو کہ (اسلام پیش کرنے کے جواز پر) قطعی طور پر دلالت کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: [بچے پر اسلام کس طرح پیش کیا جائے گا؟] گویا کہ جب وہ پہلے ہی سے اس کے اسلام کے صحیح ہونے کے متعلق دلائل پیش کرچکے ہیں، لہٰذا اب اس کو ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اور انہوں نے اس مقام پر ایک نئی بات بتلائی، کہ اس پر اسلام کیسے پیش کیا جائے؟[3] علاوہ ازیں حافظ ابن حجر نے فوائد حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: حدیث میں بچے پر اسلام پیش کرنا [ثابت ہوتا] ہے۔ اگر ایسا کرنا درست نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر پیش ہی نہ فرماتے۔[4]
[1] صحیح البخاري، کتاب الجنائز، ۳/۲۱۸۔ [2] المرجع السابق، کتاب الجہاد، ۶/۱۷۱۔ [3] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳/۲۱۹۔ [4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۳/۲۲۱۔