کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 160
حدیث شریف سے مراد یہ ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بیان کیا ہے کہ خاتون اپنی ہمسائی کو کسی بھی چیز کا بطور ہدیہ دینا حقیر نہ سمجھے، اگرچہ وہ چیز ایسی ہو، کہ اس کا عموماً کوئی فائدہ نہ ہو۔[1] حافظ ابن حجر نے مزید لکھا ہے: اس بات کا بھی احتمال ہے، کہ حدیث میں ایک بات سے منع کرکے اس کے برعکس کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تو گویا کہ اس میں تلقین کی گئی ہے، کہ ہمسائی اپنی پڑوسن سے ہدیہ کے ذریعے محبت کرے، اگرچہ یہ ہدیہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس طرح اس کام کے کرنے میں امیر و غریب سب برابر ہوجائیں گے۔[2] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عورتوں کو خصوصی طور پر اس بات سے منع کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: خواتین کو خصوصی طور پر اس سے روکنے میں حکمت یہ ہے، کیونکہ وہ ہی باہمی محبت اور دشمنی کا منبع ہوتی ہیں، اور وہ ہی دونوں صورتوں میں جلد جذبات کا شکار ہوتی ہیں۔[3] ب: خواتین کو مردوں سے پہلے سر اٹھانے سے روکنا: امام احمد نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ! مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَرْفَعْ رَأْسَہَا حَتّٰی یَرْفَعَ الرِّجَالُ رَؤُوْسَہُمْ۔‘‘ ’’اے عورتو! تم میں سے جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت کے ساتھ ایمان
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۰/۴۴۵۔ [2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۰/۴۴۵۔ [3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۰/۴۴۵۔