کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 152
کُلِّ شَہْرٍ مَرَّۃً۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِيْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِيْ عُمُرِکَ مَرَّۃً۔‘‘[1] ’’اے عباس رضی اللہ عنہ ! اے میرے چچا! کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کو عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو ہدیہ نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نہ بتلاؤں؟ کیا میں آپ کو دس خصلتوں [یعنی دس فوائد] والا کام نہ دوں؟ جب آپ اس کو کریں، تو اللہ تعالیٰ آپ کے پہلے پچھلے، پرانے نئے، بھول کر کئے ہوئے، جان بوجھ کر کئے ہوئے، چھوٹے بڑے، پوشیدہ علانیہ دس قسم کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔ آپ چار رکعت نماز ادا کیجیے۔ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور (ایک دوسری) سورت پڑھیے۔ ان کے پڑھنے سے فارغ ہوکر حالت قیام ہی میں پندرہ
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب التطوّع، باب صلاۃ التسبیح، رقم الحدیث ۱۲۹۳، ۴/۱۲۴۔۱۲۶؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب إقامۃ الصلاۃ، باب في صلاۃ التسبیح، رقم الحدیث ۱۳۸۳، ۱/۲۵۳؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب صلاۃ التطوّع، ۱/۳۱۸؛ والسنن الکبری، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في صلاۃ التطوع، رقم الحدیث ۴۹۱۶، ۳/۷۳۔ حافظ صلاح الدین العلائی نے اس کو [حسن صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: النقد الصحیح لما اعترض علیہ من أحادیث المصابیح ص ۳۰)؛ حافظ ابن حجر اس کے بارے میں اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: حق یہ ہے کہ، کثرت طرق کی بنا پر یہ حدیث [حسن] درجہ کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: أجویۃ الحافظ ابن حجر العسقلاني عن أحادیث المصابیح (المطبوع مع شرح الطیبي ۱/۳۴۶۔۳۴۹)۔ علامہ ابوالطیب عظیم آبادی لکھتے ہیں، کہ اس حدیث کو صحیح اور حسن کہنے والوں میں ابن مندہ، الآجری، الخطیب، ابوسعد السمعانی، ابوموسیٰ المدینی ابوالحسن بن المفضل، منذری، ابن الصلاح، نووی اور دوسرے (اہل علم) ہیں۔ (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۴/۱۲۴)۔ شیخ البانی نے بھی اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۱/۲۴۱؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۱/۳۲۳؛ وصحیح الترغیب والترھیب ۱/۳۵۴)؛ نیز ملاحظہ ہو: إنجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ للشیخ محمد علی جانباز ۵/۱۹۲۔۱۹۳۔