کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 150
…الآیۃ[1]} [2] اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو دعوتِ اسلام دی۔ اور ان کے قبول نہ کرنے کی بنا پر بار بار یہی دعوت دہراتے رہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ہے: ’’فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُعْرِضُہَا عَلَیْہِ‘‘ علامہ قرطبی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار (اللہ تعالیٰ کی توحید کی) گواہی دینے کی دعوت دیتے رہے۔[3] ایک اور روایت میں ہے: ’’فَقَالَ لَہُ مِرَارًا۔‘‘[4] ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ بات متعدد دفعہ دہرائی۔‘‘ حدیث سے معلوم ہونے والی دو باتیں: ۱: دعوت دین مخاطَب شخص کی وفات تک جاری رہتی ہے۔ ۲: ہدایت دینا، مخلوق میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باوجود شدید تڑپ اور محنت کے اپنے چچا کو ہدایت نہ دے سکے۔ اللہ کریم نے فرمایا: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ}[5]
[1] سورۃ التوبۃ / الآیۃ ۱۱۳۔ آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے مشرکوں کے لیے استغفار کرنا مناسب نہیں۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري: کتاب الجنائز، باب إذا قال المشرک عند الموت: ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘، رقم الحدیث ۱۳۶۰، ۳/۲۲۲؛ وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت مالم یشرع في النزع، … رقم الحدیث ۳۹ (۲۴)، ۱/۵۴۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔ [3] ملاحظہ ہو: المفہم ۱/۱۹۳۔ [4] منقول از: فتح الباري ۸/۵۰۷۔ [5] سورۃ القصص / جزء من الآیۃ ۵۶۔