کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 146
کے متعلق باب] امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ تَبْلِیْغِہِ الرِّسَالَۃَ وَمَا لَقِيَ مِنْ قَوْمِہِ] [1] [آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے اور اپنی قوم سے جو اذیت پہنچی اس کے متعلق باب] مذکورہ بالا روایتوں میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی مختلف شاخوں کو دعوت عام دی اور پھر خصوصی طور پر اپنے چچا حضرت عباس، پھوپھی حضرت صفیہ اور صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کو دعوت دی۔ ب: بنو عبد المطلب کو دعوتِ دین دینے کی خاطر جمع کرنا: امام احمد اور امام ضیاء مقدسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’جَمَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَوْ دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَنِيْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَفِیْہِمْ رَھْطٌ کُلُّہُمْ یَأْکُلُ الْجَذَعَۃَ وَیَشَرَبُ الْفَرَقَ۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد المطلب کو جمع کیا یا انہیں بلایا اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے تھے، کہ ان میں ہر ایک (پورا) جذعہ[2] کھالیتا اور
[1] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب التاریخ ، ۱۴/۴۸۵۔ [2] (جذعۃ): پانچویں سال میں داخل ہونے والے اونٹ، دوسرے سال میں داخل ہونے والی گائے اور بکری اور ایک سال کی بھیڑ کو [جذعۃ] کہتے ہیں اور یہاں جذعہ سے مراد دوسرے سال میں داخل ہونے والی بکری یا ایک سالہ بھیڑ ہے۔ (ملاحظہ ہو: بلوغ الأماني ۲۰/۲۲۳)۔