کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 143
ذکر کیا ہے اور ان میں سے بیس سے زیادہ ایسے ہیں، جو بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے ارسال کئے گئے تھے۔[1] (۹) اقرباء کو دعوتِ دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ دین دیتے ہوئے اپنے قرابت داروںکو نظر انداز نہ کیا، بلکہ ان کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ اس بارے میں سات مثالیں ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: ا: قریش کو دعوتِ دین: امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْآیَۃُ {وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ} [2]دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قُرَیْشًا فَاجْتَمَعُوْا، فَعَمّ وَخَصَّ۔‘‘ [جب یہ آیت نازل ہوئی (ترجمہ: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا اور وہ جمع ہوگئے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعوت) عامہ[3] اور (دعوتِ) خاصہ [4] دی۔
[1] ملاحظہ ہو: الطبقات الکبری ۱/۲۵۸۔۲۹۱؛ نیز ملاحظہ ہو: مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ للدکتور محمد حمید اللہ؛ وسفراء النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم للواء الرکن محمود شیت خطاب۔ [2] سورۃ الشعراء / الآیۃ ۲۱۴۔ [3] سب جمع ہونے والے لوگوں کو خطاب فرمایا۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ [4] مخصوص لوگوں کو نام لے کر خطاب فرمایا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔