کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 139
اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی، پھر کہنے لگا: ’’گرد نہ اڑاؤ۔‘‘ ’’فَسَلَّمَ عَلَیْہُمُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ، فَدَعَاھُمْ إِلَی اللّٰہِ، وَقَرَأ عَلَیْہِمُ الْقُرْآنَ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو سلام کہا، پھر رک کر (سواری) سے نیچے اترے، پھر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور انہیں قرآن سنایا۔ عبد اللہ بن ابی نے کہا: ’’اے شخص! اس سے اچھا کچھ نہیں۔ اگر تمہاری بات حق ہے، تو تم ہماری مجلسوں میں (آکر) ہمیں تنگ نہ کرو۔ اپنے گھر والوں کی طرف پلٹ جاؤ۔ پس جو ہم میں سے (وہاں) تمہارے پاس آئے اس کو یہ قصہ سنانا۔‘‘ عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لائیے، کیونکہ یقینا ہم اس کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ پھر مسلمان، مشرک اور یہود آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے کا قصد کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خاموش کرواتے رہے، یہاں تک کہ وہ چپ ہو گئے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانور پر سوار ہوکر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے۔‘‘[1] اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مجلس کو دعوت الی اللہ دی اور انہیں قرآن کریم سنایا اور اس مجلس میں اہل اسلام، بت پرست مشرک، یہودی اور منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی موجود تھا۔
[1] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب (وَلَتَسْمَعُنَّ من الذین أوْتُوا الکتاب من قبلکم ومن الذین أشرکوا أذًی کثیرا)، جزء من رقم الحدیث ۴۵۶۶، ۸؍۲۳۰۔۲۳۱؛ وصحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب في دعاء النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وصبرہ علی أذی المنافقین، جزء من رقم الحدیث ۱۱۶۔ (۱۷۹۸)، ۳/۱۴۲۲۔ ۱۴۲۳۔ الفاظِ حدیث صحیح مسلم کے ہیں۔