کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 135
عبد اللہ (ابن ابیٖ) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص (یہ بات سن کر) غصہ میں آگیا اور ان دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور چھڑی، ہاتھا پائی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے، کہ یقینا (اس موقعہ پر) یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا[1]} [2] [اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں، تو ان میں صلح کرا دو] امام نووی نے صحیح مسلم کی روایت پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ فِيْ دُعَائَ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَصَبْرِہِ عَلٰی أَذَی الْمُنَافِقِیْنَ] [3] [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت (دین) دینے اور منافقوں کی اذیت پر صبر کرنے کے متعلق باب] حدیث سے معلوم ہونے والی دیگر تین باتیں: ۱: دعوتِ دین کے لیے مخاطب کے ہاں داعی کا خود جانا۔ ۲: دعوتِ دین کی غرض سے اجتماعی طور پر جانا۔ ۳: مخاطب کی طرف سے بدسلوکی کا معاملہ پیش آنے کے لیے داعی کا ذہنی طور پر قبل از وقت تیار رہنا۔
[1] سورۃ الحجرات/ جزء من الآیۃ ۹۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الصلح، باب ما جاء في الإصلاح بین الناس، رقم الحدیث ۲۶۹۱، ۵/۲۹۷؛ وصحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، رقم الحدیث ۱۷۔ (۱۷۹۹)، ۳/۱۴۲۴۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔ [3] صحیح مسلم ۳/۱۴۲۴۔