کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 126
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ (الْمَغْضُوْبَ عَلَیْہِمْ) اَلْیَہُوْدُ، وَ(الضَّالِیْنَ) النَّصَارَی۔‘‘ [یقینا [جن پر غضب ہوا] وہ یہود ہیں، اور [گم راہ] نصاریٰ ہیں۔] [1] پہلی روایت میں ہم دیکھتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ عدی رضی اللہ عنہ کو جو کہ نصرانی تھے، دعوت اسلام دی۔ دوسری روایت میں ہم دیکھتے ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی رضی اللہ عنہ کو انتہائی حکمت سے اس بات کا قائل کیا، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بڑے ہیں۔ توفیق الٰہی سے اس کا ثمرہ عدی بن حاتم کا دائرہ اسلام میں داخل ہونا تھا۔ رضی اللہ عنہ وأرضاہ وصلوات ربي وسلامہ علی نبینا الکریم۔ واقعہ سے معلوم ہونے والی دیگر چار باتیں: ۱: جس کو دعوت دی جارہی ہو، اس کے دین کا علم، داعی کی گفتگو میں توفیق الٰہی سے قوت کا سبب بنتا ہے۔ ۲: مخاطب کی اپنے ہی دین کی خلاف ورزی کی نشان دہی، اس کے زور کو توڑنے اور حق کو ثابت کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۹۳۸۱، ۳۲/۱۲۴؛ وجامع الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الفاتحۃ، جزء من رقم الحدیث ۳۱۲۹، ۸/۲۳۱؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب إخبارہ صلی اللّٰه علیہ وسلم عن مناقب الصحابۃ، ذکر عدي بن حاتم الطائي رضی اللّٰه عنہ ،جزء من رقم الحدیث ۷۲۰۶، ۱۶/۱۸۴؛ الفاظِ حدیث صحیح ابن حبان کے ہیں۔ حافظ ہیثمی نے المسند کی روایت کے متعلق لکھا ہے: اس کو احمد نے روایت کیا ہے، اور عباد بن حبیش کے علاوہ اس کے راویان صحیح کے روایت کرنے والے ہیں، اور وہ [بھی] ثقہ ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد ۵/۳۳۵)؛ نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۶/۲۰۸)؛ اور امام ترمذی اور شیخ البانی نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ۸/۲۳۲؛ وصحیح سنن الترمذي ۳/۲۰)۔