کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 125
انہوں نے بیان کیا: ’’یقینا میں دونوں باتیں دیکھ چکا ہوں: بلاشبہ میں نے ہودج سوار عورت کو حیرہ سے تنہا نکلتے ہوئے دیکھا، یہاں تک کہ اس نے کعبہ کا طواف کیا، اور میں ان گھوڑ سواروں میں شامل تھا، جنہوں نے مدائن پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا تیسری بات بھی ضرور ہوگی۔ بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان فرمائی۔‘‘[1] عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک دوسری روایت میں ہے، کہ ان کی پھوپھی نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم دیا، تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’یَا عَدِيَّ بْنَ حَاتِمِ! مَا أَفَرَّکَ أَنْ تَقُوْلَ: ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟ فَہَلْ مِنْ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ مَا أَفَرَّکَ أَنْ تَقُوْلَ: ’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ؟ فَہَلْ مِنْ شَيْئٍ أَکْبَرُ مِنَ اللّٰہِ؟‘‘ [’’اے عدی بن حاتم! تمہیں [لا الہ الا اللہ] کہنے سے کون سی چیز بدکنے پر اکسا رہی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ہے؟ تمہیں کون سی چیز [اللہ اکبر] کہنے سے روک رہی ہے؟ کیا کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے بڑی ہے؟‘‘] انہوں نے بیان کیا: ’’فَأَسْلَمْتُ، وَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَدِ اسْتَبْشَرَ۔‘‘ ’’میں نے اسلام قبول کرلیا اور میں نے دیکھا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کھل اٹھا۔‘‘
[1] ملاحظہ ہو: المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۹۳۷۸، ۳۲/۱۱۹۔۱۲۲۔ شیخ شعیب ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے لکھا ہے: ’’اس کا کچھ حصہ صحیح ہے اور یہ [سند حسن] ہے۔‘‘ (ھامش المسند ۳۲/۱۲۲)۔