کتاب: دعوت دین کِسے دیں؟ - صفحہ 108
کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا]۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد، عبادات، اخلاق، احکام، آثارِ قیامت، جنت، دوزخ، سزا، جزا وغیرہ کے متعلق باتوں کو اس تفصیل، تشریح اور تکمیل کے ساتھ بتایا، کہ جس کی مثال دنیا کے کسی پیغمبر کی تعلیم میں نہیں ملتی۔[1] ۴: اپنی طرف سے بات نہ کہنا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تشریف لانے والے پیغمبر کے متعلق خبر دی، کہ وہ اپنی نہ کہیں گئے، بلکہ جو سنیں گے، وہی کہیں گے۔ یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص وصف تھا۔ قرآن کریم نے اس کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے: {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی۔ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی} [2] [وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے۔ وہ نہیں بولتے، مگر جو ان پر وحی کی جاتی ہے] خلاصۂ گفتگو یہ ہے، کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے اپنی اپنی امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت پیغمبر تشریف آوری کی بشارتیں دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کی شدت سے تاکید بھی کی۔ یہ بشارتیں بلاشک و شبہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت اہل عرب کے ساتھ ساتھ سارے یہود و نصاریٰ کے لیے بھی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر آپ کی امت میں شامل ہوجائیں۔ علاوہ ازیں یہی بات امتِ اسلامیہ سے اس بات کا شدّت سے تقاضا کرتی ہے، کہ وہ یہود و نصاریٰ تک پیغامِ اسلام پہنچانے کے لیے تاحد استطاعت جدوجہد کریں، شاید کہ اللہ کریم ان کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیں اور وہ دعوت دینے والے اجر عظیم کے مستحق قرار پائیں۔ وما ذلک علی اللّٰه بعزیز۔[3]
[1] ملاحظہ ہو: سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۴۳۵۔ [2] سورۃ النجم / الآیتان ۳۔۴۔ [3] اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا (کچھ) مشکل نہیں۔