کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 97
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تُونے جھوٹ بولاہے، توصرف یہ چاہتاتھاکہ تجھے بہادرکہاجائے، سووہ کہہ دیاگیا، پھراللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم فرمائے گاتُواسے منہ کے بَل گھسیٹ کرلے جایاجائے گااورجہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (دوسرا)آدمی وہ ہے جوعلم سکھاتاہے اورقرآن پڑھتاہے، اللہ تعالیٰ اسے لائے گااوراسے اپنی نعمتیں یادکرائے گاتواسے یادآجائیں گی، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا:تُونے ان میں کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا:میں نے علم سیکھااورقرآن پڑھااوراسے تیری رضاکے حصول کے لیے (دوسروں کو)سکھلایا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا:تُونے جھوٹ کہاہے، کیونکہ تیراارادہ صرف یہ تھاکہ یوں کہاجائے کہ فلاں عالم ہے فلاں قاری ہے، سواللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم فرمائے گاتواسے منہ کے بَل گھسیٹ کرلے جایاجائے گااورجہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ اور(تیسرا)آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف طرح کے مال سے نوازاتھا، اللہ تعالیٰ اسے لائے گااوراسے اپنی نعمتوں کااقرار کرائے گاتووہ تسلیم کرے گا، پھراللہ تعالیٰ فرمائے گا:تُونے ان میں کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا:میں نے کوئی چیزایسی نہیں چھوڑی کہ جسے تیری راہ میں خرچ کرناتجھے پسندہواورمیں نے اسے تیری رضاکی خاطرخرچ نہ کیاہو، تواللہ تعالیٰ فرمائے گا:تُوجھوٹاہے کیونکہ تُوصرف یہی چاہتاتھاکہ یہ کہاجائے فلاں بہت سخی ہے، تووہ کہہ دیاگیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم فرمائے گاتواسے منہ کے بَل گھسیٹ کرلے جایاجائے گااورجہنم میں ڈال دیاجائے گا۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات احاطہ علم میں آتی ہے کہ اخلاص نہ ہونے سے صرف عمل ہی رَد نہیں کیا جاتا بلکہ اس پر سزا بھی ملتی ہے۔ یعنی دو ایسے عظیم نقصان کہ جن میں سے کسی ایک کا بھی مومن متحمل نہیں ہو سکتا۔ مخلص ہونے کی سب سے بنیادی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل پر مدح و ذَم سے