کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 92
((مَا مِنْ رَجُلٍ یَکُونُ فِی قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیہِمْ بِالْمَعَاصِی، یَقْدِرُونَ عَلٰی أَنْ یُغَیِّرُوا عَلَیْہِ، فَلَا یُغَیِّرُوا، إِلَّا أَصَابَہُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَمُوتُوا)) [1] ’’جو بھی آدمی ایسی قوم میں موجود ہو کہ جن میں نافرمانی کے کام کیے جاتے ہوں اور وہ انہیں روکنے کی قدرت تو رکھتے ہوں لیکن روکتے نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کی موت سے پہلے پہلے ان سب پر عذاب بھیج کر ہی رہتا ہے۔‘‘ 5. دعوت کے منہج کو چھوڑنا عبرت کا نشان بننے کا باعث ہے : امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَوا عَنِ الْمُنْکَرِ وَإِلَّا کُنْتُمْ أَنْتُمُ الْمَوعِظَاتُ۔[2] ’’نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو، ورنہ تم ایسے ہو جاؤ گے کہ لوگ تمہیں دیکھ کر نصیحت پکڑیں گے۔‘‘ 6. دعوت کے منہج کو چھوڑنا ہرقسم کی خیر سے محرومی کا باعث ہے: امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ایسے شخص میں کیا دِینداری اور کونسی خیر و بھلائی رہ جاتی ہے جو اللہ کے محارم کو پامال ہوتا دیکھے، اس کی حدود کو ضائع ہوتا دیکھے، دِین سے لوگوں کی بیزاری اور سنتِ رسول سے رُوگردانی دیکھے لیکن اس کا دِل ٹھنڈا رہے اور اس کی زبان خاموش رہے۔ ایسا شخص گونگا شیطان ہوتا ہے، جس طرح کہ باطل کے حق میں بات کرنے والا؛ بولنے والا شیطان ہوتا ہے، دِین کے لیے آفت اور آزمائش
[1] صحیح ابن حبان: ۳۰۰۔ المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۳۸۲۔ سنن ابن ماجہ: ۴۰۰۹. [2] الخلال فی الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر: ۴۴.