کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 73
ہے کہ وہ کس راہ پہ چلیں، وہ صرف دو پکاریں ہونی چاہئیں: ’’اللہ کی طرف آ جاؤ۔‘‘ اور ’’اس کے نازل کردہ دِین کی طرف آ جاؤ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پکار لگائی تھی تو لوگوں کو دِین اسلام کی نعمت نصیب ہوئی۔ 7:… دعوت کا ساتواں معنی رغبت کرنا، دعا کرنا، یا کسی بھی مذہب اور نظریہ کی تبلیغ کرنا اور ترغیب دینا۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ ﴾ [الغافر:۴۱] ’’اے میری قوم! مجھے کیا ہے؟میں تمہیں نجات کی ترغیب دیتا ہوں اور تم مجھے آگ کی ترغیب دیتے ہو۔‘‘ جب آپ کسی بھی نظریے کی دعوت دیتے ہیں تو جب تک آپ میں تڑپ نہیں ہوتی آپ کسی کے سینے میں وہ تڑپ پیدا بھی نہیں کر سکتے اور جب تک خود آپ میں اس نظریے کی رغبت نہیں ہوتی تب تک آپ کسی کے دِل میں وہ رغبت پیدا بھی نہیں کر سکتے۔ دین کے لیے اپنا وقت اور صلاحیت لگانے کا جتنا جوش اور جذبہ آپ کے اندر ہو گا اتنا ہی آپ دوسروں تک منتقل کر سکیں گے۔ پھر صرف یہ جذبات ہی نہ ہوں بلکہ انبیاء اور رُسل کا یہ مبارک طریقہ رہا ہے کہ ان کے اندر جذبہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تڑپ بھی ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے لوگ جہنم سے بچ جائیں اور اس تڑپ کا اظہار وہ صرف دعوت سے ہی نہیں کرتے تھے بلکہ رات کو اُٹھ اُٹھ کر اپنی قوم و ملت کے لیے دعائیں بھی کیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہر انداز اور ہر طریقے سے یہ شوق، رغبت اور تڑپ ہونی چاہیے کہ لوگ راہِ راست پر آ جائیں، دِین کو اپنا لیں اور جہنم سے بچ کر جنت کے مہمان بن جائیں۔ 8:… دعوت کا آٹھواں معنی ’’پوچھنا‘‘ ہے۔ سورۃ البقرۃ میں بیان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو وہ موسیٰ علیہ السلام سے طرح طرح کے سوال کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے کہا: