کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 72
6:… دعوت کا چھٹا معنی پکارنا ہے۔ جب تک آپ کسی کو پکارتے نہیں ہیں اور اس کے سامنے اپنا درد رکھتے نہیں ہیں تب تک یہ میدان اپنے ثمرات کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَوْبِقًا﴾ [الکہف: ۵۲]
’’جس دن اللہ رب العزت فرمائے گا: بلاؤ میرے ان شریکوں کوجو تم نے گمان کر رکھے تھے ۔ سو وہ انہیں پکاریں گے تووہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہلاکت کی جگہ بنادیں گے۔‘‘
جنابِ زین العابدین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: دین کی طرف دعوت کیسے دی جائے؟ تو انہوں نے فرمایا:
یَقُولُ: أَدْعُوکَ اِلَی اللّٰہِ وَاِلٰی دِینِہٖ۔
’’داعی (اپنے مخاطب سے) کہے کہ میں تجھے اللہ کی طرف اور اس کے دِین کی طرف بلاتا ہوں۔‘‘
سب سے پہلے تو داعی کے اندر یہ سوچ ہونی چاہیے کہ جب میں کسی کو دعوت دوں گا تو نہ تو میں نے تکبر کرنا ہے اور نہ مجھے شرم اور حیاء کرنی ہے، کیونکہ تکبر کرنے والا اور شرم محسوس کرنے والا نہ تو عالم بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ دین کا کام کر سکتا ہے۔
حق و باطل کی تمیز کے لیے یہ ایک اساسی نکتہ ہے کہ حق ہمیشہ اللہ کی طرف بلائے گا، دِین کی دعوت دے گا اور مخلوق کو اس کے خالق سے جوڑنے کی بات کرے گا جبکہ باطل ہمیشہ اللہ کی بجائے شخصیات کی طرف بلائے گا، کسی ذاتی غرض اور مقاصد کو سامنے لا رکھے گا، اسے اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ کوئی شخص دِین دار بنے بلکہ اسے صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ یہ میری بات مان لے اور میں اس کو جیسے چاہوں استعمال کر سکوں۔
اس لیے کاروانِ دعوت میں نکلنے والوں کو اس معنی پہ غور کرنا ہو گا کہ لوگوں کو جو پکار لگانی